ایران میں ایک کم سن بچی کے ساتھ افسوسناک واقعے کے بعد مجرم کو سرِعام پھانسی دے دی گئی۔ یہ واقعہ مغربی آذربائیجان کے شہر بوکان کے قریب پیش آیا، جہاں عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ایران میں سرِعام سزائیں کم ہی دی جاتی ہیں، لیکن اس کیس میں عوامی غصے اور متاثرہ خاندان کے مطالبے پر حکومت نے یہ سخت قدم اٹھایا۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟
عدالتی ریکارڈ کے مطابق، مجرم نے ایک کم سن (تقریباً 6 سالہ) بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا۔ یہ دل خراش واقعہ علاقے میں شدید غم و غصے کا باعث بنا، اور لوگوں نے کھل کر شدید ردِعمل ظاہر کیا۔
واقعے کی تحقیقات کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا، اور تیز رفتار قانونی کارروائی کے بعد اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالتی کارروائی اور فیصلہ
کیس کی سماعت مارچ میں مکمل ہوئی۔
عدالت نے مجرم کو “عصمت دری کے ساتھ قتل” کے جرم میں سزائے موت سنائی۔
بعد ازاں یہ فیصلہ ایران کی سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔
صوبائی چیف جسٹس ناصر عتاباتی کے مطابق، اس کیس نے عوامی جذبات پر گہرا اثر چھوڑا تھا، اسی لیے عدالتی کارروائی کو خصوصی اہمیت دی گئی۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ مجرم کے خلاف ثبوت مضبوط اور ناقابلِ تردید تھے۔
سرِعام پھانسی کیسے دی گئی؟
12 جولائی 2025 کو بوکان کے قریب ایک کھلے میدان میں مجرم کو سرِعام پھانسی دی گئی۔
وہاں متاثرہ خاندان موجود تھا۔
بڑی تعداد میں شہری، جن میں کم عمر بچے بھی شامل تھے، اس سزا کو دیکھنے آئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر شدید تنقید کی، مگر مقامی سطح پر لوگ اس فیصلے کو انصاف کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
یہ ایران میں اس برس دی جانے والی چند سرِعام پھانسیوں میں سے ایک تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردِعمل
جس طرح ایران میں پبلک پھانسیاں عمومی طور پر کم ہوتی ہیں، اسی طرح انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام پر سوالات اٹھائے:
عوام کے سامنے پھانسی کو “نفسیاتی تشدد” قرار دیا گیا۔
یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح کے واقعات بچوں اور معاشرے پر منفی اثرات چھوڑتے ہیں۔
بعض اداروں نے دعویٰ کیا کہ متاثرہ خاندان اور مقامی شہریوں کے دباؤ پر یہ سزا سرِعام دی گئی۔
تاہم ایران میں سخت نوعیت کے جرائم پر اکثر سخت کارروائی کی جاتی ہے، خصوصاً جب متاثرہ بچہ ہو۔
نتیجہ
یہ کیس ایران میں قانون اور انصاف کے نظام پر ایک بار پھر عالمی بحث کو جنم دے گیا ہے۔
ایک طرف عوام اسے سخت جرم کی مناسب سزا سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں سرِعام پھانسیاں دینے کے طرزِ عمل کو غیر انسانی قرار دیتی ہیں۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دل سوز واقعہ پورے علاقے کو لرزا گیا، اور مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا یہ فیصلہ اب بھی سوشل میڈیا اور عالمی خبر رساں اداروں میں موضوعِ بحث