باپ تھانے کے چکر کاٹتا رہا، مگر پولیس نے انگلی تک نہ ہلائی۔

جھلوری میں ایک غریب امام مسجد کی 10 سالہ بیٹی آمنہ اسکول جاتے ہوئے اغوا ہوئی۔
پانچ دن تک پولیس خاموش تماشائی ہی نہیں، بلکہ سہولت کار
بنی رہی—چھوٹا سا محلہ، چند گھر، سب ایک دوسرے سے
واقف… پھر بھی مجرم آزاد پھرتا رہا۔
پانچ دن تک وہ معصوم بھوکی پیاسی قید رہی، ظلم سہتی رہی، ریپ ہوتی رہی—
اور چھٹے دن اس کی لاش ایک بوری میں بند مل گئی۔
عوام نے احتجاج کیا تو پولیس نے منہ چھپا کر ایک بے قصور شخص کو پکڑ دکھا دیا،
جبکہ بچی کے کپڑے اور جوتے پولیس کے یار موسیٰ کے گھر
سے برآمد ہوئے…
لیکن گرفتار ہوا زاہد۔
ذرا رک کر اپنی بچیوں کے بارے میں سوچیں۔
رات کو بجلی چلی جائے تو 15 سالہ بچیاں ڈر جاتی ہیں—
یہ دس سالہ آمنہ پانچ دن کن اذیتوں سے گزری ہوگی؟
اس کا سانس ایک پلاسٹک ٹیوب سے چھین لیا گیا۔
بتائیں، اس سے بڑی گستاخی، اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی بربریت کیا ہوسکتی ہے؟
یہ وقت بددعاؤں یا “صبر جمیل” کے درس دینے کا نہیں
یہ وقت ملک بھر میں آمنہ کے لیے آواز اٹھانے کا ہے۔
ہر دیوار، ہر ٹائم لائن، ہر پلیٹ فارم پر یہ ظلم گونجنا چاہیے،
جب تک اصل مجرم انجام کو نہ پہنچے—خاموش رہنا شریکِ جرم ہونے کے مترادف ہے۔
اور پھر وہی روایتی بہانے:
“وہ سندھ کا معاملہ ہے… ہمارے اختیار سے باہر ہے…
وزیراعظم کچھ نہیں کرسکتا… فوج کا مسئلہ نہیں…”
کیا سندھ پاکستان سے باہر ہے؟
ٹیکس پورے ملک سے وصول ہوتے ہیں،
اور انصاف علاقے کے نام پر بانٹ دیا جاتا ہے؟
اگر سندھ حکومت، مرکز، پولیس سب ہی بے بس ہیں
تو بتائیں پھر:
بلاول کس کا سفیر ہے؟
زرداری کس کا صدر ہے؟
یہ عوام کے خون پسینے کے ٹیکس کا حق کس بنیاد پر لیتے ہیں؟
ان کے لیے اقتدار اور پروٹوکول مقدم ہے—
معصوم بچوں کی لاشیں ان کے لیے صرف خبر ہیں، درد نہیں
آج پورے ملک کی چیخیں میڈیا پر سنائی دیتی ہیں،
مگر حکمرانوں کے دل پتھر بن چکے ہیں۔
سیاستدانوں کی پوجا، مجرموں کی چھتر چھایا، عوام کی سسکیاں
یہ ہے ہمارا اصل نظام۔
آمنہ کی بوری میں بند لاش،
اس کا باپ جو اب خود ایک چلتی پھرتی لاش ہے—
یہ سب ہمارے سماج کا آئینہ ہیں۔
یہ سب پڑھ کر، یہ سب دیکھ کر سانس رک سی جاتی ہے