
“دنیا میں کل تقریباً 195 ممالک ہیں۔۔ لیکن ان میں صرف 8 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ایٹم بم بنایا ہے۔ پاکستان ان 8 ممالک میں سے ہے۔سب سے پہلے 16 جولائی 1945ء امریکہ نے ایٹمی دھماکہ کیا، پھر روس نے 29 اگست 1949 میں کیا۔۔ اس کے بعد برطانیہ نے 3 اکتوبر 1952ء میں کیا، پھر فرانس نے 13 فروری 1960 میں کیا، اسکے بعد چین نے 16 اکتوبر 1964 میں کیا، پھر انڈیا نے 18 مئی 1974 میں کیا، اسکے بعد پاکستان نے 28 مئی 1998 میں کیا اور آخر میں شمالی کوریا نے 9 اکتوبر 2006 ء میں ایٹمی دھماکہ کیا۔
ان 195 ممالک میں یہ 8 ممالک کے ساتھ سب سے خطرناک ہتھیار موجود ہے اگر ان تمام ممالک کے ایٹم بم ایک ساتھ پلاسٹ ہوئے تو کروڑوں لوگ سیکنڈوں اور منٹوں میں مرجائیں گے۔ شکر ہے کہ ہم نے ایٹم بم بنایا ہے کیونکہ ایٹم بم بنانا آج کل مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے،، امریکہ ہی کی وجہ سے کوئی ملک ایٹم بم بنانے کی جرات نہیں کرتا، ایران آپ کے سامنے ہے امریکہ انہیں ایٹم بم بنانے سے روک رہا ہے۔
ایٹم بم کام کیسے کرتا ہے؟؟ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے۔ کہ ایٹم بم جہازوں سے گرائے جاتے ہیں۔۔۔ ان کو جہاز کے اندر فیٹ کرتے ہیں پھر متعلقہ جگہ پر گراتے ہیں،،،،،، ایٹم بم سطح زمین سے تقریباً سو 100 میٹر کی بلندی پر پھٹتا ہے۔ پہلے ایٹم کے ٹوٹنے کے سیکنڈ کے “ہزارویں” حصے میں”ایٹم بم” کے اندر سب “ایٹموں” کو نیوٹرون توڑ ڈالتے ہیں۔۔۔۔ ایٹموں کے ٹوٹنے سے فوری طور پر 100 میٹر بلندی پر، انتہائی تیز روشنی کا ایک بہت بڑا گولہ نمودار ہوتا ہے، جس کے سامنے سورج کی روشنی سیاہ پڑ جاتی ہے۔ یہ روشنی اس قدر تیز ہوتی ہے کہ زمین پر چلنے”پھرنے” والے انسان مرنے اور بھاپ بن کر اڑ جانے سے پہلے اپنی بینائی سے فوراً محروم ہو جاتے ہیں۔روشنی کا گولہ انتہائی تیزی سے زمین کی جانب بڑھتا ھے اس وقت اس جگہ کا درجہ حرارت تقریباً سورج جتنا ہو جاتا ہے،، جس کی گرمی سے تقریباً دو کلومیٹر دائرے کے اندر انسان جانور درخت عمارتیں گاڑیاں ایک سیکنڈ میں دھواں بن کر اڑ جاتی ہیں۔
دو تین کلومیٹر کے دائرے میں تباھی کا یہ حال ھو جاتا ہے جیسے کسی نے بہت بڑے جھاڑو سے، زمین مکمل طور پر صاف اور ہموار کر دی ہو۔ ایٹم بم پھٹنے کے ساتھ ہی ایک ھولناک دھماکہ ھوتا ھے۔ جب کہ دوسرا “دھماکہ گولہ” زمین سے ٹکرانے کے بعد ہوتا ہے جس کی شدت پہلے دھماکے سے دو سو 200 گنا زیادہ ہوتی ہے۔
پہلا دھماکہ جو فضا میں ہوتا ہے وہ ہوا میں ایک زبردست ارتعاش کی لہر پیدا کرتا ہے ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آگ جیسی گرم ہوا آندھی کی شکل میں “دھمممماکے” والی جگہ سے پیدا ہوکر چاروں طرف پھیلتی ہے جو اس قدر طاقتور ہوتی ھے کہ ایک بہت بڑے “ٹرالے” سے بھی ٹکرائے جائے تو اسے “توڑ”کر ریزہ ریزہ کر دے اس طاقتوار ہوا کے طاقت کے سامنے بڑی بڑی بلڈنگیں جو دھماکے والی جگہ سے تین چار کلومیٹر دور ہوتی ہیں۔ تنکوں کیطرح بکھر جاتی ہیں۔ہر طرف ملبہ ہی ملبہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ پہلے دھماکے کے “فورا” بعد دوسرا دھماکہ ھوتا ھے جس کی وجہ سے زمین میں زلزلے کی ایک شدید لہر پیدا ہوتی ہے۔اس شدید زلزلے کی وجہ سے نو دس کلومیٹر تک موجود “عمارتوں” کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ انسانوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے ہیں۔۔۔ ایٹموں کے ٹوٹنے سے نہ نظر آنے والی ریڈیائی شعاعوں اور نیوٹرونوں کا ایک سیلاب سا آ جاتا ھے،،،،،، جو ہر جاندار کے جسم کے آرپار ہو جاتی ہیں نیوٹرون خون کے سفید خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔
دھماکے والی جگہ سے زمین پر پھیل جانے والی گرم ھوا کے علاوہ گرم ہوا کا ایک طوفان ایٹمی ذرات کو لیکر “آسمان” کی جانب بلند ہو جاتا ھے آسمان پر بادل بن جاتے ہیں اور ایک ایسی بارش اردگرد کے علاقوں پر برسنے لگتی ہے، جس میں خطرناک تابکار ذرات ہوتے ہیں بارش کے وہ قطرے جہاں پر بھی گرتے ہیں اسکے جسم کو گلا کر رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایٹمی دھماکے سے خارج ھونے والی تابکار شعاعیں جس جس انسان کے جسم سے گذرتی ہیں۔۔ وہ انسان بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کوجاتا ہے۔ اگر ان کے ہاں اولاد پیدا بھی ہوتی ہے تو جسمانی طور پر معذور ہوتی ہے۔
جہاں دھماکہ ہوا ھوتا ہے۔ وہاں عرصہ دراز تک انسانی آبادی کا رہنا ناممکن ہو جاتا ہے۔۔ ایٹم بم کی تباہ کاری ایک دائرے کی شکل میں ہوتی ہے۔۔ جتنا زیادہ طاقتور بم ھوگا تباہی کا “دائرہ” بھی اتنا ھی وسیع ہوتا چلا جائے گا۔ اگر خدا نخواستہ عالمی جنگ شروع ہوئی تو کچھ بھی نہیں بچے گا،،،،، کیونکہ ہر ایک ملک کے ساتھ سو سے اوپر ایٹم بم موجود ہے۔۔ صرف امریکہ اور روس کے ساتھ تین تین ہزار سے زیادہ ایٹم بم موجود ہے پاکستان کے پاس 170 کے قریب ایٹم بم موجود ہے۔۔۔