لاہور میں شرمناک واقعہ : ثمرین نامی لڑکی جس دکان سے لوڈ کروانے جاتی تھی اسی دکاندار سے…


لاہور کا فرضی واقعہ: معاشرتی بے حسی، ہراسگی اور اعتماد کا ٹوٹتا رشتہ

تحریر: خصوصی فیچر آرٹیکل (افسانوی کہانی پر مبنی)

لاہور کے ایک مصروف تجارتی علاقے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے شہریوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ ثمرین نامی ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ پیش آیا—ایک فرضی کردار جو اس معاشرے میں بسنے والی ہزاروں لڑکیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

ثمرین روزانہ اپنے گھر کے قریب موجود ایک چھوٹی دکان سے موبائل لوڈ کروایا کرتی تھی۔ دکاندار اکرم (فرضی کردار) ہمیشہ خوش اخلاق نظر آتا تھا، اور اسی رویّے کی وجہ سے محلے کے لوگ اس پر اعتماد کرتے تھے۔ لیکن ایک دن اکرم نے ایسا رویہ اختیار کیا جو نہ صرف ثمرین کے لیے تکلیف دہ تھا بلکہ معاشرے کے اس تاریک پہلو کو بھی بے نقاب کرتا ہے جسے اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔

■ واقعہ: اعتماد کا غلط فائدہ

ایک شام جب ثمرین دکان پر لوڈ کروانے گئی تو اکرم نے غیر مناسب گفتگو شروع کر دی اور اس کے رویّے میں ایسی دراڑ ظاہر ہوئی جس نے ثمرین کو خوفزدہ کر دیا۔ یہ رویّہ کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں تھا۔ ثمرین نے فوراً گھر جا کر اپنے والدین کو بتایا، اور گھر والوں نے محلے کے چند معزز افراد کو اعتماد میں لے کر کارروائی کی۔

■ اہلِ محلہ کا ردعمل

محلے کے لوگوں نے اکرم سے پوچھ گچھ کی۔ اس پر نہ صرف اسے دکان بند کرنا پڑی بلکہ محلے کی کمیٹی نے بھی اس کے خلاف سخت قدم اٹھایا۔ یہ اقدام اس بات کی علامت تھا کہ جب لوگ یکجا ہو جائیں تو ماحول کو محفوظ بنانا ممکن ہوتا ہے۔

■ ثمرین کی ہمت اور ایک نئی مثال

ثمرین نے خاموش رہنے کے بجائے آواز اٹھائی—اور یہی وہ لمحہ تھا جس نے کئی دیگر لڑکیوں کو بھی ہمت دلائی کہ اگر کوئی شخص ان کے ساتھ غلط رویّہ کرے تو وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے بے نقاب کریں۔

■ اصل مسئلہ: ہراسگی صرف گلیوں میں نہیں، اعتماد کی جگہوں پر بھی

یہ واقعہ محض فردِ واحد کا نہیں—یہ ہمارے سماجی رویّوں کا نتیجہ ہے جہاں:

  • کچھ لوگ اعتماد کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں
  • متاثرہ لوگ شرم یا خوف کے باعث خاموش رہتے ہیں
  • اور معاشرہ اکثر ایسے رویّوں کو “کوئی بڑی بات نہیں” کہہ کر ٹال دیتا ہے

■ آگے کیا کرنا چاہیے؟

ماہرین کے مطابق:

  1. محلے کی سطح پر کمیٹیاں بننی چاہئیں جو ایسے واقعات کی فوری سماعت کریں۔
  2. لڑکیوں اور خواتین کو حقوق اور قانونی مدد سے متعلق آگاہی دی جائے۔
  3. ہر شخص کو سیکھنا چاہیے کہ ہراسگی صرف جسمانی نہیں، رویّوں اور جملوں سے بھی ہوتی ہے۔

اختتامیہ

ثمرین اور اُس جیسے بے شمار افراد کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ معاشرتی حفاظت ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ جب ہم ایک غلط کام کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو ہم نہ صرف ایک فرد کی مدد کرتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک محفوظ ماحول بناتے ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Facebook Twitter Instagram Linkedin Youtube